تحریر: حافظ حیدر علی
حوزہ نیوز ایجنسی | اہلِ بیت علیہم السلام کے تعارف میں بابُ الحوائج کا لقب پانے والی شخصیات میں سب سے کم عمر اور منفرد عظمت کے حامل حضرت عبداللہ بن حسین بن علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ آپ خاندانِ نبوت و رسالت کے چشم و چراغ اور امام حسین علیہ السلام کے لختِ جگر تھے۔ آپ کی ولادت ماہِ رجب سن 60 ہجری میں ہوئی۔
امام حسین علیہ السلام نے آپ کا نام علی رکھا تھا، کیونکہ امام زین العابدین علیہ السلام کے مطابق امام حسین علیہ السلام کو اپنے بابا امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے بے پناہ محبت تھی، اسی محبت کے اظہار کے طور پر آپ نے اپنے تمام بیٹوں کا نام علی رکھا۔(1)
حضرت علی اصغر علیہ السلام کو علی اصغر، طفلِ صغیر، شیر خوار، شش ماہہ، بابُ الحوائج اور طفلِ رضیع جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
والدۂ محترمہ
حضرت علی اصغر علیہ السلام کی والدہ کا نام جناب رباب بنتِ امرءالقیس بن عدی بن اوس ہے۔ آپ کا خاندان اہلِ بیت علیہم السلام سے گہری محبت رکھتا تھا۔ جناب رباب سلام اللہ علیہا اپنے عہد کی نہایت بافضیلت اور ممتاز خاتون تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کو ان سے بے حد محبت تھی، جس کا اظہار تاریخ میں ان الفاظ کے ساتھ ملتا ہے:
"مجھے اس گھر سے محبت ہے جس میں سکینہ اور رباب ہوں۔"(2)
جناب رباب سلام اللہ علیہا سے امام حسین علیہ السلام کی دو اولادیں ہوئیں: شہزادی سکینہؑ اور شہزادہ علی اصغرؑ۔
شہادتِ بابُ الحوائجؑ
بابُ الحوائج حضرت علی اصغر علیہ السلام واقعۂ کربلا کے نمایاں ترین شہداء میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کی شہادت نے تمام شہداء کی قربانیوں پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔
دس محرم الحرام سن 61 ہجری کو، جب امام حسین علیہ السلام اپنے تمام اصحاب و انصار کی قربانی پیش کر چکے اور خیموں میں خواتین، بچے اور امام زین العابدین علیہ السلام کے سوا کوئی باقی نہ رہا، تو امام حسین علیہ السلام نے درد بھرا استغاثہ بلند فرمایا:
"کیا کوئی ہے جو حرمِ رسول ﷺ کا دفاع کرے؟
کیا کوئی خدا ترس ہے جو ہمارے معاملے میں اللہ سے ڈرے؟
کیا کوئی مدد کرنے والا ہے جو رضائے الٰہی کے لیے ہماری مدد کو آئے؟
کیا کوئی ناصر ہے جو ثوابِ الٰہی کی امید میں ہماری نصرت کرے؟"
اس استغاثے کو سن کر خیموں سے عورتوں اور بچوں کی گریہ و زاری بلند ہوئی۔ امام حسین علیہ السلام خیموں کی طرف تشریف لائے اور فرمایا:
"میرے بیٹے علی (اصغر) کو لاؤ تاکہ میں اس سے وداع کر لوں۔"
ابھی وہ معصوم بچہ امام حسین علیہ السلام کی گود میں ہی تھا کہ بدبخت حرملہ نے تیر چلا کر اسے شہید کر دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے حضرت علی اصغر علیہ السلام کا خون اپنے ہاتھ میں لیا، آسمان کی طرف اچھالا اور فرمایا:
"یہ مصیبت میرے لیے اس لیے آسان ہے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔"(3)
اگرچہ حضرت علی اصغر علیہ السلام میدانِ جنگ میں ایک مجاہد کی حیثیت سے لڑ نہ سکے، لیکن کربلا میں انہوں نے تمام مصائب و آلام کو اپنے وجودِ معصوم سے جھیلا۔ آپ کی عمرِ مبارک محض چھ ماہ تھی۔
پیاس اور انسانیت کا امتحان
سات سے دس محرم تک قافلۂ حسینی پر پانی مکمل طور پر بند رہا۔ حضرت علی اصغر علیہ السلام دیگر بچوں کے ہمراہ تین دن تک پیاس کی شدت برداشت کرتے رہے، مگر یزیدی لشکر نے ان معصوموں کی فریاد پر کوئی رحم نہ کھایا۔
حضرت علی اصغر علیہ السلام کی شہادت نے ضمیرِ انسانی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آج دنیا میں انسانی حقوق اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قوانین موجود ہیں، اور ہر سطح پر بچوں پر ظلم کی مذمت کی جاتی ہے۔ مگر تاریخ کا یہ سچ اپنی جگہ قائم ہے کہ اگر امام حسین علیہ السلام اپنے شش ماہہ فرزند کی قربانی پیش نہ کرتے تو شاید لوگ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو بھی فراموش کر بیٹھتے۔
قربانیِ اسماعیلؑ کا تسلسل
حضرت علی اصغر علیہ السلام کی قربانی، اولوالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنتِ قربانی کا تسلسل ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ حضرت اسماعیل اور حضرت علی اصغر علیہم السلام کی قربانی میں کیا فرق ہے، تو جواب یہی ہے کہ:
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان گاہ میں لے جانے سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی رضا دریافت کی تھی، جبکہ حضرت علی اصغر علیہ السلام نے گلے پر تیر کھانے کے بعد ایک معصوم مسکراہٹ کے ذریعے اپنی رضا کا اعلان فرمایا۔
حضرت علی اصغر علیہ السلام کے قتلِ ناحق پر شاعر قاسم شبیر نقوی نصیر آبادی نے انسانیت سے یہ پُر درد سوال کیا ہے:
حشر تک سوچ عدلِ انسانی!
صرف اصغر کا خوں بہا کیا ہے؟
منابع
1۔ الملہوف، ص 202
2۔ مقاتل الطالبین، ص 94
3۔ خطبات، فرمودات و مکتوباتِ حسین ابنِ علیؑ، مدینہ تا کربلا، ص 370









آپ کا تبصرہ